عشق میں دل لگی سی رہتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق میں دل لگی سی رہتی ہے
by ریاض خیرآبادی

عشق میں دل لگی سی رہتی ہے
غم بھی ہو تو خوشی سی رہتی ہے

دل میں کچھ گدگدی سی رہتی ہے
منہ پر ان کے ہنسی سی رہتی ہے

یہ ہوا ہے خدا خدا کر کے
رات دن بے خودی سی رہتی ہے

حشر کے دن بھی کچھ گنہ کر لوں
معصیت میں کمی سی رہتی ہے

صدقے میں اپنے غنچہ دل کے
یہ کلی کچھ کھلی سی رہتی ہے

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

عیش بھی ہو تو لطف عیش نہیں
ہر دم افسردگی سی رہتی ہے

شب غم کی سحر میں نور کہاں
صبح بھی شام ہی سی رہتی ہے

یہ نہیں ہے کہ پردہ پڑ جائے
نشہ میں آگہی سی رہتی ہے

رہتے ہیں گل لحد کے پژمردہ
شمع بھی کچھ بجھی سی رہتی ہے

ہو گئی کیا بلا مرے گھر کو
رات دن تیرگی سی رہتی ہے

اب جنوں کی عوض ہے یاد جنوں
ہاتھ میں ہتھکڑی سی رہتی ہے

کف پا سے حنا نہیں چھٹتی
آگ یہ کچھ دبی سی رہتی ہے

تیری تصویر ہو کہ تیغ تری
ہم سے ہر دم کھنچی سی رہتی ہے

بدلے بوتل کے اب حرم میں ریاضؔ
ہاتھ میں زمزمی سی رہتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse