عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
by جگر مراد آبادی

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

بیکراں ہوتا نہیں بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں

اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دل نشیں
عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں

درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں

میرے عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے
شکوۂ غم شیوۂ اہل وفا ہوتا نہیں

اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہی جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطا ہوتا نہیں

ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں

اللہ اللہ یہ کمال اور ارتباط حسن و عشق
فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں

کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگرؔ
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse