عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
by فانی بدایونی
299813عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کرفانی بدایونی

عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
انتہا ہوئی غم کی دل کی ابتدا ہو کر

دل ہمیں ہوا حاصل درد میں فنا ہو کر
عشق کا ہوا آغاز غم کی انتہا ہو کر

نامراد رہنے تک نامراد جیتے ہیں
سانس بن گیا اک ایک نالہ نارسا ہو کر

اب ہوئی زمانہ میں شیوۂ وفا کی قدر
عالم آشنا ہے وہ دشمن وفا ہو کر

اور بندے ہیں جن کو دعوی خدائی ہے
تھی ہماری قسمت میں بندگی خدا ہو کر

عمر خضر کے انداز ہر نفس میں پاتا ہوں
زندگی نئی پائی آپ سے جدا ہو کر

بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
درد پر خدا کی مار دل میں رہ گیا ہو کر

کارگاہ حسرت کا حشر کیا ہوا یا رب
داغ دل پہ کیا گزری نقش مدعا ہو کر

عشق سے ہوئے آگاہ صبر کی بھی حد دیکھی
خاک میں ملا دوگے دیر آشنا ہو کر

کی قضائے مبرم نے زندگی کی غم خواری
درد کی دوا پہنچی درد بے دوا ہو کر

زندگی سے ہو بے زار فانیؔ اس سے کیا حاصل
موت کو منا لوگے جان سے خفا ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse