عشق صادق جو اسیر طمع خام نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق صادق جو اسیر طمع خام نہ تھا  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

عشق صادق جو اسیر طمع خام نہ تھا
سعیٔ ناکام کے غم سے مجھے کچھ کام نہ تھا

طور کے لطف خصوصی کی قسم پہلے بھی
میرے دل پر اثر جلوہ گہ عام نہ تھا

دوست کے حسن توجہ سے نہیں شاداب تک
نگہ غم زدہ میں کیا کوئی پیغام نہ تھا

حسرت خوں شدہ ہر آن نئی شان میں تھی
رنگ جو صبح کو دیکھا وہ سر شام نہ تھا

دل لگی ہم سے کئے جاتے ہیں کیوں عیش پسند
کیا یہاں سوختہ کاموں کا کوئی کام نہ تھا

جانتا تھا جسے اپنی اسی محفل میں گیا
جا کے غیروں کی طرح منتظر جام نہ تھا

مے گساری کے لئے مل گئے ہم ذوق بہت
غم گساری کے لئے کوئی بھی ہم کام نہ تھا

اس زمانے میں بھی الہام ہے منظورؔ کا شعر
میں کسی دور میں حسرت کش الہام نہ تھا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse