عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
by عشق اورنگ آبادی

عشق سے کی یہ دل خالی نے بھر جانے میں دھوم
ڈالے جیوں کم ظرف مے کے ایک دو پیمانے میں دھوم

شور تب بستی میں تھا اطفال کے پتھراؤ کا
اب دوانے دل نے ڈالا جا کے ویرانے میں دھوم

دل سیہ مست جنوں ہے جب سے یوں ڈالا ہے شور
جیوں ہو فیل مست کی زنجیر کھل جانے میں دھوم

دل میں یوں آتی ہے تیری یاد اے یار عزیز
مصر میں جیوں حضرت یوسف کی تھی آنے میں دھوم

کم نما رہتا ہے تو ہم سے ہلال عید سا
جچ گئی دل میں تری ابرو نظر آنے میں دھوم

عشقؔ کے داغوں نے کی ہے دل کے گلشن میں بہار
ہوگی کیا لالہ کی یاں تشریف فرمانے میں دھوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse