عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا
by باسط بھوپالی

عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا
ہم بھی انہیں کے ہیں تو پھر اپنا بھی اعتبار کیا

عشرت زیست کی قسم عشرت مستعار کیا
غم بھی جو مستقل نہ ہو غم کا بھی اعتبار کیا

مٹتی ہوئی حیات کیا لٹتی ہوئی بہار کیا
یعنی قریب صبح غم شمع کا اعتبار کیا

یاد سے ان کی کام رکھ درد کا اہتمام رکھ
موت بھی آ ہی جائے گی موت کا انتظار کیا

بڑھتی رہیں گی تا بہ کے اہل جنوں کی وحشتیں
چھپتے رہیں گے وہ پس آئینۂ بہار کیا

قیمت کائنات کیا ان کی نگاہ ناز میں
فتنۂ حشر کے لئے فتنۂ روزگار کیا

راہ دراز جبر ہے کہتے ہیں جس کو زندگی
راہ دراز جبر میں منزل اختیار کیا

اتنا بھی انتظار دوست ہائے یہ اعتبار دوست
اے دل بیقرار دوست دوست پہ اختیار کیا

عشق سے سر گراں نہ ہو حسن سے بد گماں نہ ہو
جس کے لئے خزاں نہ ہو اس کے لئے بہار کیا

یاد میں تیری پا لیا میں نے سکون زندگی
اب تری یاد میں مجھے چین کیا قرار کیا

میری نظر سے دیکھیے اپنا جمال بے مثال
چشم بہار ساز میں آئینۂ بہار کیا

میری وفا وفا نہیں ان کی جفا جفا نہیں
ہائے اسی کا نام ہے عالم اعتبار کیا

باسطؔ فگار کی یاد بھی کیا نہ آئے گی
اب نہ سنیں گے ہم وطن نالۂ بے قرار کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse