عشق بیتاب جاں گدازی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق بیتاب جاں گدازی ہے
by ولی دکنی

عشق بیتاب جاں گدازی ہے
حسن مشتاق دل نوازی ہے

اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو
مذہب عشق میں نمازی ہے

جو ہوا راز عشق سوں آگاہ
وو زمانے کا فخر رازی ہے

پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم
عشق مضمون پاک بازی ہے

جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں
بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے

تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر
ناز مفہوم بے نیازی ہے

اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہد مجازی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.