عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
by اکبر الہ آبادی

عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا

صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل
کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا

تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز
پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا

شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں
دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا

کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے
عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا

اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں
شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا

عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز
ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا

شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند
حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse