عشق بتاں کا جب سے مجھے ڈھنگ آ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق بتاں کا جب سے مجھے ڈھنگ آ گیا
by جمیلہ خدا بخش

عشق بتاں کا جب سے مجھے ڈھنگ آ گیا
ہاتھوں سے میرے دست جنوں تنگ آ گیا

کس شوق سے یہ بزم میں کہتا ہے دل مرا
مطرب کے ساتھ بن کے یہاں چنگ آ گیا

ڈرنا عبث ہے خار مغیلاں سے اب مجھے
منزل میں عشق کے کئی فرسنگ آ گیا

جی چاہتا ہے پھینک دوں پہلو سے میں اسے
بیتابیوں سے دل کی تو میں تنگ آ گیا

منظور شیشۂ دل عاشق ہے توڑنا
جو ہاتھ میں لیے ہوئے وہ سنگ آ گیا

پامال تم نے گر دل عاشق نہیں کیا
تلووں میں کیوں نہ خون کا پھر رنگ آ گیا

کس طرح لوگ کوئے بتاں تک چلے گئے
میرے تو ہر قدم پہ وہاں سنگ آ گیا

سن کر غزل کو میری جمیلہؔ نے یہ کہا
اس میں تو صوفیانہ بھی کچھ رنگ آ گیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.