عشق بالواسطہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق بالواسطہ
by چودھری محمد علی ردولوی

لارڈ کرزن ہندستان کے سابق وائسرائے اور انگلستان کے مشہور سیاست داں کی بابت مشہور تھا کہ وہ ’’میں‘‘ کااستعمال بہت کرتے تھے۔ قیصر ولیم شہنشاہ جرمنی میں بھی لوگ یہی عیب بتاتے تھے۔ نفسیات کے ماہرین کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنی انانیت کی وجہ سے وہ ٹھوکریں کھائیں گے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی دوسرے یادرکھیں گے۔ وہ دونوں تو چل بسے۔ اب اس زمانے میں ایک ہم ہی خودی کے قدردان رہ گئے ہیں، رہے نام اللہ کا۔

تو ہم بھی کب تک، ناظرین کو اگر میری بات میں شک ہو تو واحد متکلم کا صیغہ اس تحریر میں گنتے جائیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ معلوم ہی ہوجائے گا میرے ان دونوں ہم خیالوں میں صفات یہی تھے جن کو سراہنے میں ان کو لطف آتا تھا۔ ہم میں ذری صفات کی کمی رہ گئی ہے۔ اس لیے ہم اپنے عیوب ہی کا ذکر کرکے سڑا سا منھ سوندھا کرتے ہیں۔ عیوب کا لفظ تو ہم نے مصنف خوار معترضین کا منھ بند کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اگر ہم ان کو واقعی عیب سمجھتے تو بیان ہی کرنے کیوں بیٹھتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ کمزوریاں کہہ دیتے وہ بھی آپ کی خاطر سے ورنہ ہم تو ان کو صفات ہی سمجھتے۔

اپنے عیوب اور صفات کی طویل فہرست میں ہم جس عیب کا تذکرہ کرنے جاتے ہیں وہ صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں دل میں کچھ ہو مگر زبان پر وہی ہوگا جس کو سننے والے اور کہنے والا سب ہی جھوٹ جانتے ہیں۔ مگر سچ پکارتے رہتے ہیں۔ آپس میں سمجھوتہ اسی پر ٹھہرا ہے جیسے چوروں میں ہوتا ہے۔ عورت کانام آیا نہیں کہ ان حضرات کا ذہن عیوب کی طرف منتقل ہوا نہیں۔ اب لاحول ولاقوۃ ہے، الحیاہ من الایمان ہے، استغفراللہ کا زور بندھا ہے۔ دل کا حال تو خدا ہی جانتا ہے کہ صرف منھ میں شیخ فرید ہے ورنہ بغل میں اینٹیں ہم سے بھی زیادہ لیے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ حافظ شیرازی، شیخ سعدی اور عمر خیام رحمہم اللہ تعالیٰ کے قدموں سے لگے مونچھوں پر تاؤ دیتے چلے جاتے ہیں۔

من ارچہ عاشقم ور ندمست و نامہ سیاہ
ہزار شکر کہ یاران شہر بے گنہ اند
گرکند میل بخوباں دل من خوردہ مگیر
کیں گناہے است کہ درشہر شمانیز کنند

باماہ جبیں نشستہ در ویرانے
عیشے است کہ ہست حد ہر سلطانے

تو وجہ کیا کہ ہمارے دشمن لوگ عورت کا صرف ایک ہی مصرف جانتے ہیں اور ہم خدا کی اس ’’موہبت عظمی عطیہ کبری‘‘ کی قدر پہچانتے ہیں کہ چاہے ابوالآدم کی پہلی خدائی خلافت ہو، چاہے ابوالقاسم محمدؐ کی آخری رسالت ہو۔ حوا اور خدیجہ سلام اللہ علیہما کی ضرورت ہمیشہ تسلیم ہوئی ہے۔ ذرا غور تو فرمائیے۔ حضرت آسیہ نہ ہوتیں تو حضرت موسی علیہ السلام پر کیسی بنتی۔

پولیٹکل ضرورت سےایک بار ہم الہ آباد گیے۔کئی دن کی مصروفیت اور ہم آدمی ٹھہرے کاہل۔ تھک سے گیے، مگر لطف کے جلسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ ہم سے زیادہ ہماری بی بی پریشان ہوگئیں۔ مہاوٹیں جو برسنے لگیں تو ڈنر ٹیبل اور ڈرائنگ روم، پارٹیوں اور چائے کی دعوتوں کا مزا کرکرا ہوگیا اور بی بی کی طرف سے واپسی کا اصرار شروع ہوا۔ اپنی بی بی کے مزاج سے کون نہیں واقف ہوتا۔ اس لیے میں نے کہا بھی کہ ابھی تو دو ایک ساڑیاں اور جوڑے بن پہنے رہ گیے ہیں۔ جلدی کا ہے کی ہے مگر ان کی ضد بڑھتی ہی گئی۔

میں: اور وہ سبز پائپنگ والی شفن جارجٹ ساری اور نیا سٹ۔

بی بی: ہوگی وہ ساری اور نیاسٹ، کوئی ہم سے چھین لے جائے گا! دیکھ رہے ہو، یہ بن برسات کی برسات لگی ہے۔ بوتات والی کوٹھری ساون میں کتنی ٹپکتی تھی اور اناج یوں ہی ٹوکروں میں بھرا چھوڑ آئے ہیں۔

یہ نسوانی دلیل پائپنگ والی ساڑی اور نئے سٹ پر بھی غالب آگئی اور ناچار ایک عنایت فرما کو معذرت کا خط بھی لکھنا پڑا کہ ہم لوگ سخت مجبوری میں گھر واپس جارہے ہیں اور کل کے ڈنر میں نہ شریک ہونے کا ہم دونوں آدمیوں کو بڑاقلق ہے۔

میں: صرف جج صاحب کے یہاں جانا رہ گیا ہے۔ صبح ان کے یہاں ہوتے ہوئے مکان نکل چلیں گے۔

بی بی: ان کے یہاں جانا بہت ضروری ہے، نہیں تو بڑی شکایت ہوگی۔ مگر زیادہ دیر نہ لگانا تم تو جہاں بیٹھ جاتے ہو، اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ہو۔

دوسرے دن صبح کو نو بجے ہم لوگ جج صاحب کے یہاں پہنچے۔ خود جج صاحب تو تھے نہیں۔ مگر ان کے چھوٹے بیٹے اور جج صاحب کی بی بی تھیں۔ ایک مہمان بھی ٹھہری تھیں۔ تعارف ہوا باتیں ہونے لگیں۔ یہ صاحب زادی ابھی ابھی آکسفورڈ سے واپس آئی ہیں۔ جج صاحب کے صاحب زادے اور یہ لوگ کمیونسٹک انداز کے لوگ ہیں۔ خیر پولیٹکل خیالات سے اس وقت نہ ہم کو دلچسپی ہے نہ ان جھگڑوں میں پڑنے کو دل چاہتا ہے، وہ تو کسی ایسے ستارے کی گردش میں پیدا ہوئے ہوں گے جہاں عورت کا راج ہوگا۔

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
ایک آفت میں جان ہے پیارے

ساٹھ برس کا سن عشرۂ قاتلہ کو پار کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور ہم ہیں کہ اس کی بھی ہمت باندھے ہیں، بقول نظیر اکبر آبادی کے

اب بھی ہمارے آگے یارو جوان کیا ہے

ان صاحب زادی سےتعارف میرا کرایا گیا کہ فلاں شخص کے والد ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف لوگوں سے اس طرح کروایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں، فلاں کے داماد ہیں۔ اور اب یہ زمانہ لگا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاس کے سسر ہیں، مگر ہم چکنے گھڑے، ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ ہم وہ نہیں رہے۔

وہ صاحب زادی: آپ سے مل کر بڑا جی خوش ہوا (اپنے میزبان کی طرف اشارہ کرکے ) ان سے اور اپنے دوسرے دوستوں سے آکسفورڈ میں اور یہاں بھی آپ کے لڑکے کی بڑی تعریفیں سنی ہیں۔ آج کل کہاں ہیں؟

میں: جی ہاں یقیناً لکھنؤ میں ہوں گے۔

صاحب زادی: ہم لوگ اس وقت دریا کی سیر کو جارہے ہیں، چلیے آپ بھی چلیے۔

میں: میں تو کل ہوآیا ہوں مگر چلیے ضرور چلوں گا (اپنی بی بی کی طرف مخاطب ہوکر) پھر اس وقت کا جانا ملتوی کردو۔ شام کو چلیں گے۔

اناطول فرانس، میرتقی میر، ولیسیکز، فردوسی، رمبراں، سعدی، گوئٹے، رفیل روحیں میری مدد کو پہنچو۔ تمہارےاس ناچیز مرید پر بڑا سخت وقت پڑا ہے، تم نے بڑے گاڑھے وقت میں میری مدد کی ہے۔ میری کمزور انگلیوں میں جس دو، میرے گھسے پسے قلم کو موقلم کا زور بخشو کہ اس گھڑی کی تصویر اتاردے۔

ہماری کمسن بی بی نے کہا تو صرف ’’اچھا‘‘ مگر ان کے چہرے پر اس مایوسی کی جھلک دکھائی دی جو ارادہ فسخ ہونے پر پیدا ہوتی ہے۔ فلسفیانہ تاسف کی مسکراہٹ نے زبان حال سے کہا ہم نے تو ان کی صورت دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ تم پھسل پڑوگے۔ ماتھے کی خفیف شکن اور ابرو کی کمان نے کہا، ’’تمہارے سن کی زیادتی سے اور نیز اس وجہ سے کہ ہم سے محبت کرتے ہو، اطمینان ہے کہ افلاطونی محبت سقراطی محبت تک نہ پہنچے گی۔ پھر بھی ہماری مسکراہٹ پر نہ جاؤ۔‘‘ آنکھوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت غیرجگہ نہ بیٹھے ہوتے تو رنگ دوسرا ہوتا۔ مگر تم پریشان نہ ہو، گھر پہنچ کر بھی ہم لڑیں گے نہیں۔ عادت کے گھٹے پڑچکے ہیں۔‘‘ ہونٹوں نے کہا، ’’اور بات خدا لگتی کہنا چاہیے، تمہاری بچوں کی ایسی باتوں پر ہنسی بھی تو آتی ہے کہ جہاں کسی نے چٹکی بجائے۔ تم گیگلے بچے کی طرح ہمک کر اسی کی گود میں پہنچ گئے۔‘‘ گردن کے ڈورے نے ایک طرف پھر کر کہا، ’’ارے تم شام کو بھی نہ چلو گے، ہم تو جانتے ہیں نا! خیر دریا کی سیر ایک بار پھر ہوجائے گی اور وہ پائپنگ والی ساڑی اور نیاسٹ بھی سوارت ہوجائے گا۔ ہمارا بھی تو ہاتھ نگوڑا پتھر کے نیچے دبا ہے۔ چلو یوں ہی سہی۔‘‘گالوں نے ٹھڈی کی مدد لے کر کہا، ’’ہم بھی تو تمہارے پیار سے بے بس ہیں۔‘‘

بنگال کی شاخ کا چشمہ انگلستان کے پودے پر بندھا۔ منورما اپنے ملک کو واپس آئیں۔ آکسفورڈ کے فرسٹ کلاس کے نیچے کبھی بات نہیں کی۔ ہندستان آئیں، جو دیکھتا ہے کہتا ہے، ’’واہ واہ!‘‘ صورت شکل کوئی دنیا سے نرالی نہیں ہے مگر وہ بات جس کو شیراز کے حافظ جی ’’آن‘‘ کہا کرتے تھے۔ ہرچیز سے پیدا ہے۔ کچھ ناگن کی سی چال کچھ برق تمثال، کچھ پھول کچھ کلی، آدھی بند آدھی کھلی، چاندی کی سی بے تکلفی، علم کی خوداعتمادی، کمیونسٹ فلسفے کی بناپر برابری کا دعویٰ، خودنسوانیت کے حقوق نہیں مانگتی تھیں مگر مردوں میں کچھ ایسا رومانی اثر پیدا ہوجاتا ہے کہ ہر شخص خراج تحسین لیے حاضر ہے۔ آنکھوں سے باتیں کریں، ہنسی سے خوشی پیدا ہو، ہونٹوں کی جنبش میں پسندیدگی ناپسندیدگی۔۔۔ گال، ناک، ماتھا مسائل حل کر رہے ہیں۔

نہ گفت و من بشنیدم ہر آنچہ گفتن داشت
کہ در بیاں نگہش کرد برزبان تقدیم

دہاں چونوبت خویش از نگاہ باز گرفت
فتاد سامعہ در موج کوثر و نسیم

میرے پڑھنے والو معلوم نہیں کہ تم میرا مضحکہ اڑاؤگے یا خود اپنے آنے والے بڑھاپے کا خیال کرکے عبرت بمد پیشگی کروگے۔ مگر ہم تو کھیت رہے۔ انا للاناث و انا الیہن راجعون۔کہاں کی واپسی اور کیسا رخت سفر۔ اس وقت چائے ہے تو اس وقت سنیما ہے۔ سیر ہے تفریح ہے۔

رشتہ در گردنم افگندہ دوست
می برد ہرجا کہ خاطر خواہ اوست

ایک کوئی ہمارے ہی ایسے اگلے زمانے میں بھی گزرے ہیں، خالی وہ جوان تھے ہم تجربہ کار ہیں۔ شحنہ عشق ان پر بھی ہماری ہی طرح سوار تھا۔ وہ بے چارے جنگل جنگل اپنی معشوقہ کانام لیتے پھرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے کہ ’’آہ حسینہ میری نیند اڑالے جانے والی، مجھ کو راتوں کو جگانے والی۔‘‘ ان کا خدمت گار بھی ساتھ ساتھ تھا۔ دبی زبان وہ بھی کہتا جاتا تھا، ’’میری بھی نیند اڑالے جانے والی، مجھ کو بھی راتوں کو جگانے والی‘‘ یہی حال ہماری بیگم صاحب کا تھا کہ وہ بھی کچھ ہنسی، کچھ غصہ زبان حال سے وہی خدمت گار والی باتیں فرماتی تھیں۔ گوتجربے کی بناپر ان کواطمینان تھا پھر بھی۔

’’دل نہ اڑ جائے کہیں دام سے تیرے صیاد
گرچہ پژمردہ ہے یہ صید ولے طیر تو ہے‘‘

عمر بھر کے ساتھ کا وعدہ خدا کے سامنے رسول کے سامنے پنچ برادری کے سامنے کرچکی تھیں۔ بھلا ایسے وقت میں ایک باؤلے کو بغیر رسی کے یوں ہی کیسے چھوڑدیتیں۔ صبح کی گاڑی تو چھوٹ ہی چکی تھی۔ شام کی گاڑی گئی۔ اب دوسرے دن کاپاتر اب رکھا گیا۔ مگر منورما بولیں، ’’کمیونسٹ پارٹی کی ماہوار کمیٹی کل ہوگی۔ ہم تم کو بھی ممبر کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد چلو تو ہم بھی لکھنؤ جائیں گے۔ تمہارے گھر رائے بریلی تک ریل پر بھی ساتھ رہے گا۔‘‘ میرا تو ذکر ہی کیا مگر منورما کی وجہ سے صحبتیں کچھ ایسی دلچسپ ہوگئی تھیں کہ خلاف امید میری بی بی بھی ایک دن اور ٹھہرنے پر راضی ہوگئیں۔ عموماً ان جلسوں میں ایک ہم ہی مسن ہوتے تھے ورنہ عورت مرد سب وہی تھے جن میں امنگ، جوانی تہیہ، ارادہ، ہمت، آئندہ کی امیدیں موجود۔ مختصر گزشتہ قریب قریب مفقود۔ ان صحبتوں میں ہر فرد پڑھا لکھا۔ زیادہ تر دو ہی قسم کی باتیں ہوتی تھیں یا قربانی، خدمت، کارل مارکس کے اصول کی بے دھڑک پابندی، ہتھیلی پر جان لے کر کام کرنے یا کھلے ڈلے جنسی طلسمات دونوں قسموں میں جوش قدر مشترک۔

کیا کہنا جوانی کا اصول، اخلاق کی نئی دلآویز تفسیریں، جوانی کے خواب کی نئی تعبیریں، جنس کے دنیا ساز قیود ٹوٹے پڑے تھے۔ البتہ فطرت کی حفاظتیں مجبوراً برقرار تھیں۔ مساوات نےعورت مرد کا فرق کم کردیا تھا۔ اگر کسی نے کسی لڑکی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو وہ جھجکی نہیں، اگر کوچ پر کوئی کسی سے بھڑ کر بیٹھا تو تعجب نہیں۔ تھوڑی بے تکلفی اور بڑھ گئی تو کمرے میں ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیے۔ یہ باتیں دیکھ کر ہماری بی بی کی آنکھیں کھل گئیں۔

بیٹھے بیٹھے کچھ مزا ہم کو بھی اب آنے لگا
اب تو ہم بھی درد دل میں مبتلاہونے لگے

ہم یہ تو کہہ ہیں سکتے کہ وہ بے جھجک اس میدان میں آگئیں مگر شعور باطن ان کا بھی کمیونسٹ ہی ایسا معلوم ہوا۔بجائے ان کے اب ہم گھر کی واپسی کے منصوبے باندھنے لگے۔ ہماری بیگم بھی کمیٹی میں شریک ہوئیں۔ ناواقف کاری کی وجہ سے زیادہ حصہ تو نہ لے سکیں۔ مگر بہت ذہانت اور دلچسپی سے جلسے کی کارروائی سناکیں۔ گہرے مسائل تک تو شاید نہ پہنچتی ہوں مگر دبی زبان سے اتنا تو کہا کہ جب مرد ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں تو عورت بھی اپنا یہ حق کیوں نہ لے۔ ناظرین ہم نے واپسی کا ارادہ مصمم کرلیا۔ آج پہلے پہل شام ہم نےاپنی قیام گاہ ہی پر بسر کی اور رات وہی اپنے ستارے کی گردش کے اثر سے بیگم اور منورما کے منصوبوں میں گزاری۔

صبح کو ریل پر منورما کاآخری مرتبہ ساتھ ہوا۔ دریا کی سیر میں منورما نے کچھ تصویریں احباب کی اتاری تھیں وہ دکھائیں، ہم نے اپنے چہرے کی شکنیں دیکھ کر اللہ کا شکر بھیجا کہ آدمی خود اپنی صورت نہیں دیکھ سکتا۔ اسی کے ساتھ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ باوجود چہرے پر الو کے ہمارے دل کی تصویر سے ایک تشفی سی بھی ہوئی۔ اسٹیچو ہوکہ تصویر ہو، اولاد ہو کہ تصنیف ہو جہاں اس فنا کے چیتھڑے کو کسی نہ کسی صورت سےکچھ دن اور بھی دنیا میں رہنے کی آس ہوئی، دل خوش ہی ہوجاتا ہے۔لیجیے صاحب رائے بریلی کا اسٹیشن آگیا۔ ہم ہاتھ ملاکر ریل گاڑی سے اترے، ہم نے اپنے دل میں کہا، ’’خوش درخشید ولے دولت مستعجل بود۔‘‘ اب یہ موہنی صورت پھر کاہے کو دیکھنے میں آئے گی۔

منورما: آپ اپنے لڑکے کو کچھ پیغام تو نہ دیجیے گا کیونکہ کل کمیونسٹ جلسے میں ان سے ملاقات ضرور ہوگی۔ وہ تو لکھنؤ کی کمیٹی کے سکریٹری ہیں نا؟

میں: جی اسے تو کچھ کہنا نہیں ہے۔ مگر آپ سے ایک درخواست ہے اگر ہوسکے تو ہمارے لڑکے ہی پر عاشق ہوجائیے گا۔

منورما: میں حتمی وعدہ تو نہیں کرسکتی مگر کوشش کروں گی۔ ختم اس مضمون کی تنقید خود مصنف کے قلم سے۔ ڈاکٹر جانس نے بادشاہ جارج سے کہا تھا کہ نئی باتیں آدمی صرف تین سال تک سیکھتا ہے۔ اس کے بعد اسی پرانے علم کی جانچ، رگڑتگڑ ہوا کرتی ہے۔ چمک صفائی زیادہ ہوجاتی ہے لیکن چیز وہی رہتی ہے۔ برنارڈ شانوے سال سے اوپر کے ہیں، ان کے عنفوان شباب کے ناول دیکھیے، جوانی کے ڈرامے دیکھیے، جو چمک، جو شفافی، دو آخری ڈراموں میں ہے اس پر عش عش کیجیے لیکن غور سے دیکھیے تو پتا چلتا ہے کہ وہی اگلے برس کی تیلیاں ہیں، خالی اوپر کی جگمگاہٹ، رونق اور ٹھاٹھ دلآویز ہے۔ نئی بات بڑھاپے میں کہاں جو کچھ ہے وہی غنیمت ہے۔

جب برنارڈ شا کا یہ حال ہو تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ تنقید کرنے میں بوڑھے کا دل رکھ لیجیے گا۔۔۔ بقول رسکن کے، ’’تصویر میں یہ نہ ڈھونڈھو کہ کیا نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہواس کی تعریف کرو۔‘‘ اس نظریے سے اگر دیکھا جائے تو مصنف کا نڈر انداز اور ریلزم قابل داد ہیں۔

پیری کے ولولے ہیں خزاں کی بہار ہے۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse