عشق ان سب سے الگ سب سے جدا ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق ان سب سے الگ سب سے جدا ہوتا ہے
by صفی اورنگ آبادی

عشق ان سب سے الگ سب سے جدا ہوتا ہے
چیخنے رونے تڑپ لینے سے کیا ہوتا ہے

یاد آتا ہے گلے مل کے ترا پچھتانا
ہر نئی عید میں یہ رنج نیا ہوتا ہے

جو بھلا کرتا ہے اللہ کے بندوں کے لئے
غیب سے اس کا بھی ہر کام بھلا ہوتا ہے

گفت و گو میں یہ نزاکت ہے کہ اللہ اللہ
ایک اک حرف بھی مشکل سے ادا ہوتا ہے

قہر ہوتا ہے حسینوں میں جو ہوتا ہے متیں
شوخ ہوتا ہے جو ان میں وہ بلا ہوتا ہے

جینے دیتی ہے کسے پیار کی صورت کافر
دوست تو دوست ہے دشمن بھی فدا ہوتا ہے

تذکرے حسن کے سن حسن کا دل دادہ نہ بن
بعض باتوں کے تو سننے میں مزا ہوتا ہے

مہ جبیں عید میں انگشت نما کیوں نہ رہیں
عید کا چاند ہی انگشت نما ہوتا ہے

پھبتیاں غیر پہ کسنے کو ہے موجود صفیؔ
اور اس پہ کبھی ہنسئے تو خفا ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse