عشق الزام بھی تو ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
by صفی اورنگ آبادی

عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
یہ برا کام بھی تو ہوتا ہے

دوستی کچھ مجھی کو تم سے نہیں
یہ مرض عام بھی تو ہوتا ہے

نہیں تکلیف ہی محبت میں
اس میں آرام بھی تو ہوتا ہے

وعدہ کرنے میں پھر تأمل کیا
ہاں تمہیں کام بھی تو ہوتا ہے

رات دن درد ہی نہیں رہتا
دل کو آرام بھی تو ہوتا ہے

نشۂ حسن اور پھر کب تک
بادۂ خام بھی تو ہوتا ہے

نام پر تیرے کیوں نہ آتا پیار
پیار کا نام بھی تو ہوتا ہے

کیا تعجب جو ہو وصال میں وصل
کام میں کام بھی تو ہوتا ہے

اے صفیؔ عاشقی کی یہ تعریف
اور انجام بھی تو ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse