عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
Appearance
عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
یہ برا کام بھی تو ہوتا ہے
دوستی کچھ مجھی کو تم سے نہیں
یہ مرض عام بھی تو ہوتا ہے
نہیں تکلیف ہی محبت میں
اس میں آرام بھی تو ہوتا ہے
وعدہ کرنے میں پھر تأمل کیا
ہاں تمہیں کام بھی تو ہوتا ہے
رات دن درد ہی نہیں رہتا
دل کو آرام بھی تو ہوتا ہے
نشۂ حسن اور پھر کب تک
بادۂ خام بھی تو ہوتا ہے
نام پر تیرے کیوں نہ آتا پیار
پیار کا نام بھی تو ہوتا ہے
کیا تعجب جو ہو وصال میں وصل
کام میں کام بھی تو ہوتا ہے
اے صفیؔ عاشقی کی یہ تعریف
اور انجام بھی تو ہوتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |