عشق اب میری جان ہے گویا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق اب میری جان ہے گویا
by جلیل مانکپوری

عشق اب میری جان ہے گویا
جان اب میہمان ہے گویا

سوز دل کہہ رہی ہے محفل میں
شمع میری زبان ہے گویا

جس کو دیکھو وہی ہے گرم تلاش
کہیں اس کا نشان ہے گویا

ہے قیامت اٹھان ظالم کی
وہ ابھی سے جوان ہے گویا

چھینے لیتی ہے دل تری تصویر
وہ ادا ہے کہ جان ہے گویا

ایک دل اس میں لاکھ زخم فراق
ٹوٹا پھوٹا مکان ہے گویا

مانگے جائیں گے تجھ کو ہم تجھ سے
منہ میں جب تک زبان ہے گویا

جی بہلنے کو لوگ سنتے ہیں
درد دل داستان ہے گویا

آدمی وقف کار دنیا ہے
میہماں میزبان ہے گویا

تیری کس بات کا بھروسہ ہو
تیری ہر بات جان ہے گویا

دل میں کیسے وہ بے تکلف ہیں
ان کا اپنا مکان ہے گویا

ہائے اس عالم آشنا کی نظر
ہر نظر میں جہان ہے گویا

اچھے اچھوں کو پھانس رکھا ہے
زال دنیا جوان ہے گویا

چپ رہوں میں تو سب کھٹکتے ہیں
بے زبانی زبان ہے گویا

بے وفائی پہ مرتے ہیں معشوق
دل ربائی کی شان ہے گویا

کوئی اس پر نگاہ کیا ڈالے
تمکنت پاسبان ہے گویا

تیری صورت تو کہتی ہے قاتل
خود ترا امتحان ہے گویا

خوبرویان ماہ پیکر سے
یہ زمیں آسمان ہے گویا

آج ہے دید کی اجازت عام
موت کا امتحان ہے گویا

وار پر وار کرتے جاتے ہیں
کچھ ابھی مجھ میں جان ہے گویا

اس سخن کا جلیلؔ کیا کہنا
مصحفیؔ کی زبان ہے گویا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse