عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا
by میر سوز

عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا
جگ کے خرابہ اندر اک خوار تھا سو میں تھا

داخل شہیدوں میں تو لوہو لگا کے سب تھے
شمشیر ناز سے پر افگار تھا سو میں تھا

سنبل کے پیچ میں دل تیرے نہ تھا کسی کا
نرگس کا ایک تیری بیمار تھا سو میں تھا

تجھ گھر میں عرض مطلب کس کی نہ تھا زباں پر
در پر جو تیرے نقش دیوار تھا سو میں تھا

داغ محبت اے گل جب تھا ترا نہ جگ میں
داغوں سے جس کا سینہ گلزار تھا سو میں تھا

گو عشق کے تمہارے عشاق اب مقر ہیں
اول زباں پہ جس کی اقرار تھا سو میں تھا

تجھ عشق میں نصیحت سب یار مانتے تھے
ناصح کے پر سخن سے بے زار تھا سو میں تھا

اس مے کدے میں گاہے اے سوزؔ ہم نہ بہکے
سب مست و بے خبر تھے ہشیار تھا سو میں تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse