عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
by محمد ابراہیم ذوق

عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمر رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

نہ سمجھو دشت شفاخانۂ جنوں ہے یہ
جو خاک سی بھی پڑے پھانکنی دوا سمجھو

سمجھ تو کورسوادوں کو ہو جو علم نہ ہو
اگر سمجھ بھی نہ ہو کور بے عصا سمجھو

پڑے کتاب کے قصوں میں کیا کرو دل صاف
صفا ہو دل تو بہ از روضۃ الصفا سمجھو

ہنسے جو وہ مرے رونے پہ تو صف مژگاں
نہ سمجھو تم اسے دیوار قہقہا سمجھو

نفس کی آمد و شد ہے نماز اہل حیات
جو یہ قضا ہو تو اے غافلو قضا سمجھو

تمہاری راہ میں ملتے ہیں خاک میں لاکھوں
اس آرزو میں کہ تم اپنا خاک پا سمجھو

دعائیں دیتے ہیں ہم دل سے تیغ قاتل کو
لب جراحت دل کو لب دعا سمجھو

بہا دیا مرا خوں اس نے اپنے کوچے میں
اسی کو یارو دیت سمجھو خوں بہا سمجھو

سمجھ ہے اور تمہاری کہوں میں تم سے کیا
تم اپنے دل میں خدا جانے سن کے کیا سمجھو

تمہیں ہے نام سے کیا کام مثل آئینہ
جو روبرو ہو اسے صورت آشنا سمجھو

زہے نصیب کہ ہنگام مشق تیر ستم
ہمارے ڈھیر کو تم تو وہ خاک کا سمجھو

نہیں ہے کم زر خالص سے زردی رخسار
تم اپنے عشق کو اے ذوقؔ کیمیا سمجھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse