عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
by کیفی حیدرآبادی

عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
کہ جدھر دیکھیے تو ہے تری یکتائی ہے

بے نیازی ہے خود آرائی ہے خود رائی ہے
آپ کی جانے بلا کون تمنائی ہے

پاتے ہیں لطف حیات ابدی تیرے شہید
ذبح کرنا ترا اعجاز مسیحائی ہے

تم کو کیفیؔ سے تعلق تو نہ ہوگا لیکن
جان پہچان ملاقات شناسائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse