عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
by محمد علی جوہر

عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
غیر سمجھا ہے کہ میری آہ بے تاثیر ہے

خوگر قید وفا پر کھل چکا زنداں کا راز
جرم تھی وہ قید یہ اس جرم کی تعزیر ہے

بے گناہی سے بھی بڑھ کر ہے اگر کوئی گناہ
تو سزائے عشق پا کر خجلت تقصیر ہے

چھوڑ میری فکر غافل رو خود اپنی قید پر
جس کو تو زیور سمجھتا ہے وہی زنجیر ہے

سجن و جنت دونوں اے کافر ہیں اس دنیا کے نام
وہ ازل سے بخت مومن یہ تری تقدیر ہے

دار ہی بنتی ہے اے دل زینۂ معراج عشق
خواب آغاز محبت کی یہی تعبیر ہے

ہو نہ الجھن جب جنون جامہ ور کامل نہ ہو
جب تلک دامن ہے خار دشت دامن گیر ہے

ہاتھ تو ہوں گے قلم پر نامہ بر یہ بھی کہا
دل چرا لیتی ہے پہلو سے یہ وہ تحریر ہے

پائیداری میں ہے قصروں سے سوا کچی سی قبر
جو قیامت تک رہے قائم یہ وہ تعمیر ہے

خون ناحق کا کسی کے شبہ اور تم پر مگر
سینۂ جوہرؔ میں دیکھو تو یہ کس کا تیر ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse