عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں
by خواجہ محمد وزیر

عذار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں
مگر یہ حشر کا دن ہے کہ جس کی شام نہیں

فراق یار میں دونو سے ہم کو کام نہیں
ہوس سحر کی نہیں آرزوۓ شام نہیں

ولائے کعبۂ ابرو سے منہ کو کیا پھیروں
نماز ختم نہ ہو جب تلک سلام نہیں

یہ سیف آپ کی مثل پری سہی قد ہے
مگر یہ عیب ہے چلتی نہیں خرام نہیں

کہو نہ سرو کو اک زر خرید ہی اپنا
کیا جو بندے کو آزاد پھر غلام نہیں

نہیں اعادۂ طاعت کو پیشوا درکار
قضا نماز کو کچھ حاجت امام نہیں

کسی طرح شب فرقت بسر نہیں ہوتی
کچھ اس کو گردش ایام سے بھی کام نہیں

جو اس نے بات نہ کی ہو گیا مجھے اثبات
دہن وہ تنگ ہے گنجائش کلام نہیں

بجھی ہے آب سے کیا تیری تیغ تیز کی آنچ
کہ خونفشاں مرے دل کا کباب خام نہیں

پھری ہے فرقت جاناں میں چشم دختر رز
یہ گردش آنکھ کی ساقی ہے دور جام نہیں

نہ دیکھا نقش قدم کا صدائے پا نہ سنی
سمند عمر سا کوئی سبک خرام نہیں

برہنہ رہتی ہے شمشیر ابرو قاتل
مثال تیغ اجل حاجت نیام نہیں

بندھیں وہ ہاتھ حنا سے کیا ہے جن سے شہید
کچھ اور یار سے منظور انتقام نہیں

نہ داغ دو شب فرقت کا دن کو نام نہ لو
ابھی چراغ نہ روشن کرو کہ شام نہیں

جگر سے سینے سے دل سے گزر گئی دم میں
تری طرح تری تلوار کو قیام نہیں

ستارۂ فلک حسن کہئے کم سن ہے
ابھی وہ چاند کا ٹکڑا مہ تمام نہیں

پھرے طلب میں جو دنیا کی وہ نہیں دیں دار
مثال دانہ جو گردش میں ہے امام نہیں

نہ خط مصحف عارض کا معتقد ہو وزیرؔ
حروف جس میں ہوں اللہ کا کلام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse