عدو کمبخت کو سودا ہے کچھ ایسا جدائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عدو کمبخت کو سودا ہے کچھ ایسا جدائی کا
by ماسٹر باسط بسوانی

عدو کمبخت کو سودا ہے کچھ ایسا جدائی کا
لئے سر پر پھرا کرتا ہے ڈھانچہ چارپائی کا

کبھی تم مجھ کو دھر پٹکو کبھی میں تم کو دے ماروں
مزا اس وقت ہے اے جان جاں اس ہاتھا پائی کا

یہ کیا پڑھ پڑھ کے دم کرتے ہو چپکے سے حسینوں پر
اٹھا ہی چاہتا ہے شیخ پردہ پارسائی کا

سر محفل رقیب رو سیہ کا ٹیٹوا پکڑا
مچایا شور بزدل نے دہائی کا تہائی کا

تمہیں جب میں نے دھر ڈپٹا تو کوئی بھی نہیں بولا
بہت ہی دم بھرا کرتے تھے اعدا آشنائی کا

میں دل پر چوٹ کھاؤں ان پری رویوں کے ہاتھوں سے
مجھے نسخہ اگر کوئی بتا دے مومیائی کا

سر محفل ہر اک سے بے جھجھک آنکھیں لڑاتا ہے
اٹھایا ہے بت پر فن نے کیا بیڑا ڈھٹائی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse