عدو پر لطف ہے ہم پر جفا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عدو پر لطف ہے ہم پر جفا ہے
by ہاجر دہلوی

عدو پر لطف ہے ہم پر جفا ہے
مری جاں کیا یہی رسم وفا ہے

ستم ایجاد تیری کیا خطا ہے
مری تقدیر ہی مجھ سے خفا ہے

ہم اپنے حال کے قربان جائیں
وہ فرماتے ہیں تم کو کیا ہوا ہے

ترے در پر جبیں سائی سے حاصل
کہیں تقدیر کا لکھا مٹا ہے

تمہاری کاکل پیچاں سے الجھوں
مرا بیٹھے بٹھائے سر پھرا ہے

تصور کی فسوں کاری تو دیکھو
وہ گویا سامنے بیٹھا ہوا ہے

عبث کرتے ہو تکلیف مداوا
مریض غم کہیں جان بر ہوا ہے

وہ سن کر کہتے ہیں فریاد ہاجرؔ
کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse