عدو تو کیا یہ فلک بھی اسے ستا نہ سکا
Appearance
عدو تو کیا یہ فلک بھی اسے ستا نہ سکا
خوشی ہنسا نہ سکی غم جسے رلا نہ سکا
نہ پوچھ اس کی دل افسردگی کی کیفیت
جو غم نصیب خوشی میں بھی مسکرا نہ سکا
وہ پوچھ بیٹھے یکایک جو وجہ بے تابی
کھجا کے رہ گیا سر بات کچھ بنا نہ سکا
وہ دیکھ لیں نہ کہیں میری چشم پر نم کو
گیا تو ملنے کو آنکھیں مگر ملا نہ سکا
یہ دو دلی میں رہا گھر نہ گھاٹ کا انجمؔ
بتوں کو کر نہ سکا خوش خدا کو پا نہ سکا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |