عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
by مومن خان مومن

عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا جو دل نہ ہوتا تو غم نہ ہوتا

ہوئی خجالت سے نفرت افزوں گلے کیے خوب آخریں دم
وہ کاش اک دم ٹھہر کے آتے کہ میرے لب پر بھی دم نہ ہوتا

پڑا ہی مرنا بس اب تو ہم کو جو اس نے خط پڑھ کے نامہ بر سے
کہا کہ گر سچ یہ حال ہوتا تو دفتر اتنا رقم نہ ہوتا

کسی کے جلنے کا دھیان آیا وگرنہ دود فغاں سے میرے
اگر ہزاروں سپہر بنتے تمہاری آنکھوں میں نم نہ ہوتا

جو آپ در سے اٹھا نہ دیتے کہیں نہ کرتا میں جبہہ سائی
اگرچہ یہ سر نوشت میں تھا تمہارے سر کی قسم نہ ہوتا

وصال کو ہم ترس رہے تھے جو اب ہوا تو مزا نہ پایا
عدو کے مرنے کی جب خوشی تھی کہ اس کو رنج و الم نہ ہوتا

جہان تنگ و ہجوم وحشت غرض کہ دم پر بری بنی تھی
کہاں میں جاتا نہ جی ٹھہرتا کہیں جو دشت عدم نہ ہوتا

مگر رقیبوں نے سر اٹھایا کہ یہ نہ ہوتا تو بے مروت
نظر سے ظاہر حیا نہ ہوتی حیا سے گردن میں خم نہ ہوتا

وہاں ترقی جمال کو ہے یہاں محبت ہے روز افزوں
شریک زیبا تھا بوالہوس بھی جو بے وفائی میں کم نہ ہوتا

غلط کہ صانع کو ہو گوارا خراش انگشت ہائے نازک
جواب خط کی امید رکھتے جو قول جف القلم نہ ہوتا

یہ بے تکلف پھرا رہی ہے کشش دل عاشقاں کی اس کو
وگرنہ ایسی نزاکتوں پہ خرام ناز اک قدم نہ ہوتا

وصال تو ہے کہاں میسر مگر خیال وصال ہی میں
مزے اڑاتے ہوس نکلتی جو ساتھ انداز رم نہ ہوتا

ہوا مسلماں میں اور ڈر سے نہ درس واعظ کو سن کے مومنؔ
بنی تھی دوزخ بلا سے بنتی عذاب ہجر صنم نہ ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse