Jump to content

عجیب ہے یہ زندگی

From Wikisource
عجیب ہے یہ زندگی
by تنویر نقوی
330926عجیب ہے یہ زندگیتنویر نقوی

عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی
ہر ایک شے ہے بے یقیں ہر ایک چیز عارضی
یہ کارواں رکے کہاں کہ منزلیں ہیں بے نشاں
چھپے ہوئے ہیں راستے یہاں وہاں دھواں دھواں
خطر ہیں کتنے راہ میں سفر ہے کتنا اجنبی
عجیب ہے یہ زندگی
یہ گال زرد زرد سے اٹے ہوئے ہیں گرد سے
ستم رسیدہ دل یہاں تڑپ رہے ہیں درد سے
یہ صورتیں کہ جن پہ ہے ستم کی داستاں لکھی
عجیب ہے یہ زندگی
ہیں بہتری کے واسطے تو یہ ستم قبول ہیں
چنیں گے پھول جان کر جو راہ میں ببول ہیں
خوشی سے غم سہیں گے ہم جو غم کے بعد ہے خوشی
عجیب ہے یہ زندگی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.