عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
by جلیل مانکپوری

عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
مئے دوآتشہ بھر دی ہے دو پیالوں میں

سنیں جو آپ تو سونا حرام ہو جائے
تمام رات گزرتی ہے جن خیالوں میں

امید و یاس نے جھگڑے میں ڈال رکھا ہے
نہ جینے والوں میں ہم ہیں نہ مرنے والوں میں

چمن میں گل بھی حنا بھی مگر نصیب کی بات
کوئی تو سر چڑھے کوئی ہو پائمالوں میں

نسیم شمع لحد کو ذرا بچائے ہوئے
یہی ہے ایک غریبوں کے رونے والوں میں

یہاں خزاں کا نہ کھٹکا نہ خوف گلچیں کا
بہار گل میں رہے یا تمہارے گالوں میں

نہیں ہے لطف کہ خلوت میں غیر شامل ہو
اٹھا دو شمع کو یہ بھی ہے جلنے والوں میں

چبھے گا کیا دل پر خوں کا راز آنکھوں سے
جو ہوگا شیشے میں آئے گا وہ پیالوں میں

ہزار شکر کہ ہم نقص میں ہوئے کامل
جلیلؔ رہ گئی بات اپنی ذی کمالوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse