عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے
by حفیظ جونپوری

عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے
نظر نہ جس سے ملاتے تھے ہم وہی اب آنکھیں دکھا رہا ہے

بڑھی ہے آپس میں بد گمانی مزہ محبت کا آ رہا ہے
ہم اس کے دل کو ٹٹولتے ہیں تو ہم کو وہ آزما رہا ہے

گھر اپنا کرتی ہے نا امیدی ہمارے دل میں غضب ہے دیکھیو
یہ وہ مکاں ہے کہ جس میں برسوں امیدوں کا جمگھٹا رہا ہے

بدل گیا ہے مزاج ان کا میں اپنے اس جذب دل کے صدقے
وہی شکایت ہے اب ادھر سے ادھر جو پہلے گلہ رہا ہے

کسی کی جب آس ٹوٹ جائے تو خاک وہ آسرا لگائے
شکستہ دل کر کے مجھ کو ظالم نگاہ اب کیا ملا رہا ہے

یہاں تو ترک شراب سے خود دل و جگر پھنک رہے ہیں واعظ
سنا کے دوزخ کا ذکر ناحق جلے کو تو بھی جلا رہا ہے

کروں نہ کیوں حسن کا نظارہ سنوں نہ کیوں عشق کا فسانہ
اسی کا تو مشغلہ تھا برسوں اسی کا تو ولولہ رہا ہے

امید جب حد سے بڑھ گئی ہو تو حاصل اس کا ہے ناامیدی
بھلا نہ کیوں یاس دفعتاً ہو کہ مدتوں آسرا رہا ہے

مجھے توقع ہو کیا خبر کی زباں ہے قاصد کی ہاتھ بھر کی
لگی ہوا تک نہیں ادھر کی ابھی سے باتیں بنا رہا ہے

ذرا یہاں جس نے سر اٹھایا کہ اس نے نیچا اسے دکھایا
کوئی بتائے تو یہ زمانہ کسی کا بھی آشنا رہا ہے

حفیظؔ اپنا کمال تھا یہ کہ جس کے ہاتھوں زوال دیکھا
فلک نے جتنا ہمیں بڑھایا زیادہ اس سے گھٹا رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse