عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے  (1926) 
by یاسین علی خاں مرکز

عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے
خدا کی طلب شرک کی جستجو ہے

شراب محبت میں مخمور ہوں میں
پیالہ بھرا ہے ملبب سبو ہے

پتہ ایک کا دو میں کیوں کر ملے گا
جو کثرت فنا ہو تو خود تو ہی تو ہے

نہیں غیر کوئی تشخص کا پردہ
من و تو فقط غیر کی گفتگو ہے

ہے خود آپ موجود ہر یک صفت سے
جدائی نہیں اس میں کچھ مو بہ مو ہے

صفت بسط و قابض کی تخم و شجر ہے
جو بو ہے سو گل ہے جو گل ہے سو بو ہے

وہ پیر طریقت ہے کامل اسی کو
خدا اس کے ہر آن میں روبرو ہے

وجود ایک ہے صورت اس کی مغیر
ہے جلوہ اسی کا نہ میں اور تو ہے

تو مرکزؔ ہے عالم میں پیدا و ظاہر
بنایا بناتا ہے جو کچھ کہ تو ہے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse