عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
by داغ دہلوی

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا

غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا

ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse