عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
by ثاقب لکھنوی

عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
خیر جگہ تو مل گئی دیدۂ اعتبار میں

توڑ رہا ہے باغباں پنکھڑیاں بہار میں
کوئی تو ہو فدائے گل ایک نہیں مزار میں

محو ہوں یاد چہرۂ شاہد گل عذار میں
اب یہ خزاں نصیب دل جا کے ملا بہار میں

اوج نہاد طبع کی مٹ کے بھی شان رہ گئی
مر کے میں سوئے آسماں مل کے اڑا غبار میں

میرے لباس کہنہ سے ہٹتی نہیں ہے ان کی آنکھ
شاید الجھ گئی نظر جامۂ تار تار میں

تم نے شب فراق میں دیکھیں نہیں جو حالتیں
آج وہ آ کے دیکھ لو عالم احتضار میں

جذب شمیم زلف ہے دانۂ دام سے سوا
سیکڑوں دل کھنچ آئے ہیں گیسوئے مشکبار میں

فیصلہ ہو ہی جائے گا چھنٹنے دے بھیڑ حشر کی
ثاقبؔ دل حزیں ہے آج تو بھی کسی شمار میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse