عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
by نظم طباطبائی

عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
خدا معلوم یہ سامان کیا ہو جائے سر کیا ہو

یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یارب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو

جہاں انسان کھو جاتا ہو خود پھر اس کی محفل میں
رسائی کس طرح ہو دخل کیوں کر ہو گزر کیا ہو

نہ پوچھوں گا میں یہ بھی جام میں ہے زہر یا امرت
تمہارے ہاتھ سے اندیشۂ نفع و ضرر کیا ہو

مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوب صورت ہو مگر کیا ہو

شگوفے دیکھ کر مٹھی میں زر کو مسکراتے ہیں
کہ جب عمر اس قدر کوتاہ رکھتے ہیں تو زر کیا ہو

رہا کرتی ہے یہ حیرت مجھے زہد ریائی پر
خدا سے جو نہیں ڈرتا اسے بندہ کا ڈر کیا ہو

کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو

کہا میں نے کہ ہے سوز جگر اور اف نہیں کرتا
کہا اس کی اجازت ہی نہیں پھر نوحہ گر کیا ہو

کہا میں نے کہ دے اس کو اجازت آہ کرنے کی
کہا اس نے بھڑک اٹھے اگر سوز جگر کیا ہو

کہا میں نے کہ آنسو آنکھ کا لیکن نہیں تھمتا
کہا آنکھیں کوئی تلووں سے مل ڈالے اگر کیا ہو

کہا میں نے قدم بھر پر ہے وہ صورت دکھا آؤ
کہا منہ پھیر کر اتنا کسی کو درد سر کیا ہو

کہا میں نے اثر مطلق نہیں کیا سنگ دل ہے تو
کہا جب دل ہو پتھر کا تو پتھر پر اثر کیا ہو

کہا میں نے جو مر جائے تو کیا ہو سوچ تو دل میں
کہا ناعاقبت اندیش نے کچھ سوچ کر کیا ہو

کہا میں نے خبر بھی ہے کہ دی جاں اس نے گھٹ گھٹ کر
کہا مر جائے چپکے سے تو پھر مجھ کو خبر کیا ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse