عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
by اشرف علی فغاں

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا

ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا

کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مرا یار نہ ہوتا

معلوم کسے تھی یہ تری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا تو گرفتار نہ ہوتا

عالم کو جلاتی ہے تری گرمی مجلس
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا

اے شیخ اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا

ظالم مرے حاسد کی تو شادی تھی اسی میں
یعنی مجھے در تک بھی ترے بار نہ ہوتا

دیتے تری مجلس میں اگر راہ فغاںؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بے زار نہ ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse