عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور
by حاتم علی مہر

عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور
یار نے آئینے میں اپنا سا دیکھا ایک اور

مرنے والوں میں رہا جاتا ہے جیتا ایک اور
نیم بسمل ہوں میں قاتل ہاتھ پورا ایک اور

رفتہ رفتہ دل کو دل سے راہ ہو جائے کہیں
ان سے ملنے کا رہے پوشیدہ رستہ ایک اور

ایک تو مسی کا نقشہ جم رہا ہے شام سے
پان کی لالی نے رنگ اپنا جمایا ایک اور

میں نے مانا آپ نے بوسے دیئے میں نے لیے
وہ کہاں نکلی جو ہے میری تمنا ایک اور

یاد میں اک شوخ پنجابی کے روتے ہیں جو ہم
آج کل پنجاب میں بہتا ہے دریا ایک اور

ان کا جھومر دیکھ کر کہنے لگے اہل زمیں
دیکھ لے اے آسماں عقد ثریا ایک اور

جیتے جی تو دامن صحرا کا خلعت مل گیا
بعد مرنے کے ملے ان کا دوپٹہ ایک اور

بزم سے ساقی کے ہم سے رند نکلے پاک صاف
اپنا اب کعبہ میں پہنچے گا مصلیٰ اک اور

شاعران‌ عصر کی تجھ کو تو ہے پیغمبری
بو سیلمی بھی ہوئے اے مہرؔ پیدا ایک اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse