عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
by ماتم فضل محمد

عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
رہتا ہے اس کو نشہ شراب فرنگ کا

کہتے ہیں لوگ دیکھ تیرے رخ پہ خال کو
کیا حکم روم میں ہے سپہدار زنگ کا

اے رشک حور وسعت جنت میں بھی مجھے
تجھ بن ہے بے گمان یقیں گور تنگ کا

جب سے پتنگ ہوں میں ترے شمع رو کا یار
معلوم تھا نہ تجھ کو اڑانا پتنگ کا

خوف خدا نہ ہوتا تو رکھتا میں اے صنم
عرش عظیم نام تمہارے پلنگ کا

اے سبز رنگ مست مئے عشق و حسن تو
افیوں کو پوچھتے نہیں کیا ذکر بھنگ کا

خال رخ نگار ہیں چہرے خیال میں
بینی دکھائی دے ہے دونالی تفنگ کا

ماتم مرا ہے یار سوا ہم کو بزم نور
صوت بکا سے کم نہیں آواز چنگ کا

آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا

وہ چشم گھات میں دل پر داغ کے نہیں
آہو کو ہے ارادہ شکار پلنگ کا

ناموس کا تو فکر ہے ماتمؔ عبث یہاں
یہ عشق خصم نام کا دشمن ہے ننگ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse