عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
by بیخود دہلوی

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں رکھتے

سر رکھتے ہیں سر میں نہیں سودائے محبت
دل رکھتے ہیں دل میں کوئی ارماں نہیں رکھتے

نفرت ہے کچھ ایسی انہیں آشفتہ سروں سے
اپنی بھی وہ زلفوں کو پریشاں نہیں رکھتے

رکھنے کو تو رکھتے ہیں خبر سارے جہاں کی
اک میرے ہی دل کی وہ خبر ہاں نہیں رکھتے

گھر کر گئیں دل میں وہ محبت کی نگاہیں
ان تیروں کا زخمی ہوں جو پیکاں نہیں رکھتے

دل دے کوئی تم کو تو کس امید پر اب دے
تم دل تو کسی کا بھی مری جاں نہیں رکھتے

رہتا ہے نگہبان مرا ان کا تصور
وہ مجھ کو اکیلا شب ہجراں نہیں رکھتے

دشمن تو بہت حضرت ناصح ہیں ہمارے
ہاں دوست کوئی آپ سا ناداں نہیں رکھتے

دل ہو جو پریشان تو دم بھر بھی نہ ٹھہرے
کچھ باندھ کے تو گیسوئے پیچاں نہیں رکھتے

گو اور بھی عاشق ہیں زمانے میں بہت سے
بیخودؔ کی طرح عشق کو پنہاں نہیں رکھتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse