عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جا رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جا رہے ہیں
by عشق اورنگ آبادی

عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جا رہے ہیں
بے درد ناصحوں نے ناحق ستا رہے ہیں

فصل بہار میں ہم کیوں کر نہ ہوں دوانے
گل چاک کر گریباں دھومیں مچا رہے ہیں

پھر آونے کا وعدہ تم کر گئے ہو ہم سے
پیارے تمہاری رہ پر آنکھیں لگا رہے ہیں

اے ابر تو برستا اور ہی طرف چلا جا
امڈے ہیں غم کے بادل سو ہم تھما رہے ہیں

دل کھول ٹک جو برسیں ارض و سما ڈباویں
مژگان تر کے ظالم وہ ابر چھا رہے ہیں

یہ عشق نیں ہے برعکس جا دیکھ لے چمن میں
آ خوش نین عدم سے آنکھیں دکھا رہے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse