عاشق نہ اگر وفا کرے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشق نہ اگر وفا کرے گا
by میر محمدی بیدار

عاشق نہ اگر وفا کرے گا
پھر اور کہو تو کیا کرے گا

مت توڑیو دل صنم کسی کا
اللہ ترا بھلا کرے گا

ہے عالم خواب حال دنیا
دیکھے گا جو چشم وا کرے گا

جیتا نہ بچے گا کوئی ظالم
ایسی ہی جو تو ادا کرے گا

کل کے تو کئی پڑے ہیں زخمی
کیا جانیے آج کیا کرے گا

آ جائے گا سامنے تو جس کے
دل کیا ہے کہ جی فدا کرے گا

کیا جانیے کیا کرے گا طوفاں
گر اشک یوں ہی بہا کرے گا

بیدارؔ یہ بیت درد رو رو
فرقت میں تری پڑھا کرے گا

اپنی آنکھوں میں تجھ کو دیکھوں
ایسا بھی کبھو خدا کرے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse