عاشق سوختہ دل خط صنم دونوں ایک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشق سوختہ دل خط صنم دونوں ایک
by قاسم علی خان آفریدی

عاشق سوختہ دل خط صنم دونوں ایک
جس طرح سنیے جدا شادی و غم دونوں ایک

دونوں باطن میں اگر ایک ہیں لیکن کوئی
آب و آتش نہیں رکھتا ہے بہم دونوں ایک

ہے جدا سجدہ کی جا ہندو مسلماں کی مگر
فہم والوں کے تئیں دیر و حرم دونوں ایک

کحل کرتے ہیں ہم آنکھوں میں برابر دونو
سرمۂ کور کو اور خاک قدم دونوں ایک

جب پھنسا زلف میں جا دل نہ رہا ننگ و حیا
طاق پر رکھئے وہاں ننگ و شرم دونوں ایک

بار غم ہجر پڑا سر پہ کسی کے اس دم
خاک میں دیجے ملا عقل و فہم دونوں ایک

عوض ہجر نہ لوں عیش تمام عالم کا
ہے ازل سے مجھے فرمان حکم دونوں ایک

دل میں ارماں نہ رہا باقی جو چاہا سو کیا
سیر دنیا کی بھی اور سیر عدم دونوں ایک

یار آغوش میں اپنے ہے مہیا ہر دم
بس ہے یہ میرے تئیں جاہ و حشم دونوں ایک

آرزو قاسمؔ علی دل میں نہیں کچھ لیکن
چاہئے اپنے تئیں فضل و کرم دونوں ایک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse