عاشقی کے آشکارے ہو چکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشقی کے آشکارے ہو چکے  (1926) 
by یاسین علی خاں مرکز

عاشقی کے آشکارے ہو چکے
حسن یکتا کے پکارے ہو چکے

اٹھ گیا پردہ جو فی مابین تھا
من و تو کے تھے اشارے ہو چکے

ہے بہار گلشن دنیا دو روز
بلبل و گل کے نظارے ہو چکے

چل دیئے اٹھ کر جہاں چاہے وہاں
ایک رنگی کے سہارے ہو چکے

یاس سے کہہ دیں گے وقت قتل ہم
ہم تو اے پیارے تمہارے ہو چکے

واصل دریا جو قطرہ ہو گیا
غیریت کے تھے پکارے ہو چکے

گلشن ہستی میں دیکھی تھی بہار
اوج پر جو تھے ستارے ہو چکے

ورطۂ دریا کا غم جاتا رہا
غوطہ کھاتے تھے کنارے ہو چکے

نیک و بد سے تم کو مرکزؔ کیا غرض
دور دشمن تھے تمہارے ہو چکے


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.