عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے
by جلیل مانکپوری

عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے
میرے دل میرے جگر کا کام ہے

ہو ہری شاخ تمنا یا نہ ہو
سینچ دینا چشم تر کا کام ہے

بڑھ چلے پیک تصور کا قدم
اب یہاں کیا نامہ بر کا کام ہے

دل مرا لے جانے والا کون تھا
یہ کسی جادو نظر کا کام ہے

ہم سے کیا ہو وصف قاتل کا بیاں
یہ لب زخم جگر کا کام ہے

موت جب آئے تو راہی جان ہو
اس سفر میں راہ بر کا کام ہے

فیصلہ ہونے میں دشواری ہے کیا
تیرے خنجر میرے سر کا کام ہے

آج آنسو تم نے پونچھے بھی تو کیا
یہ تو اپنا عمر بھر کا کام ہے

گل دکھاتے ہیں ہمیں کیا زخم تن
دل پہ کھانا کوئی چرکا کام ہے

دل سے لائے لب پہ ہم آہ و فغاں
اب تجھے لانا اثر کا کام ہے

در بدر پھرتے ہی گزری چرخ کو
یہ اسی بیداد گر کا کام ہے

آنکھوں آنکھوں میں اڑا لیتے ہیں دل
دل ربائی بھی نظر کا کام ہے

تیغ کیوں چلنے میں بل کھانے لگی
یہ تری نازک کمر کا کام ہے

سینے سے کچھ ہٹ کے ہے دل کی جگہ
اس جگہ ترچھی نظر کا کام ہے

بے چلے ہی پاؤں دیتے ہیں جواب
منزل الفت میں سر کا کام ہے

قدسیوں سے کون بازی لے گیا
یہ بشر ہے یہ بشر کا کام ہے

موتیوں سے منہ ترا بھرنا جلیلؔ
آصف عالی گہر کا کام ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse