عارض روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عارض روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں
by اسماعیل میرٹھی

عارض روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں
کفر کی گمراہیاں ہم رنگ ایماں ہو گئیں

زلف دیکھی اس کی جن قوموں نے وہ کافر بنیں
رخ نظر آیا جنہیں وہ سب مسلماں ہو گئیں

خود فروشی حسن کو جب سے ہوئی مد نظر
نرخ دل بھی گھٹ گیا جانیں بھی ارزاں ہو گئیں

جو بنائیں تھیں کبھی ایوان کسریٰ کا جواب
گردش افلاک سے گرد بیاباں ہو گئیں

خوف ناکامی ہے جب تک کامیابی ہے محال
مشکلیں جب بندھ گئیں ہمت سب آساں ہو گئیں

ہائے کس کو روئیے اور کس کی خاطر پیٹئے
کیسی کیسی صورتیں نظروں سے پنہاں ہو گئیں

کیا انہیں اندوہ ہنگام سحر یاد آ گیا
شام ہی سے بزم میں شمعیں جو گریاں ہو گئیں

اک فرشتے بھی تو ہیں جن کو نہ محنت ہے نہ رنج
خواہشیں دل کی بلائے جان انساں ہو گئیں

کیا ہے وہ جان مجسم جس کے شوق دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں

تھی وہ توفیق الٰہی میں نے سمجھا اپنا فعل
طاعتیں بھی میرے حق میں عین عصیاں ہو گئیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse