ظلم سالے نے کیا یہ دل دلگیر کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظلم سالے نے کیا یہ دل دلگیر کے ساتھ
by بوم میرٹھی

ظلم سالے نے کیا یہ دل دلگیر کے ساتھ
رکھ دیا باندھ کے چھپر میں اسے تیر کے ساتھ

غیر کو کرکے رہا یار بھی تدبیر کے ساتھ
دے دیا سنکھیا تھوڑا سا اسے کھیر کے ساتھ

مرشدی جان کا منہ جس نے کیا تھا کالا
آج بھاگی ہے مرا دن بھی اسی پیر کے ساتھ

وصل کا نیم مزہ ہو گیا حاصل مجھ کو
رات بھر سویا لپٹ کر تری تصویر کے ساتھ

کی مقدر کی شکایت تو حرامی نے کہا
تیری تقدیر کا لکھا تری تقدیر کے ساتھ

اس طرح پھرتا ہوں اس شوخ کے پیچھے پیچھے
جیسے اتوار لگا رہتا ہے ہر پیر کے ساتھ

لے کے اس شوخ کو آرام سے چھت پر سویا
غیر کو ڈال دیا باندھ کے شہتیر کے ساتھ

پھر تو حاصل ہو مزہ وصل کا دونا مجھ کو
عقد ہو جائے اگر یار کی ہمشیر کے ساتھ

کمسنی ہی میں ہوا شوق اسیری پیدا
برسوں کھیلا ہوں میں دروازے کی زنجیر کے ساتھ

اس طرح جنبشیں دے دے کے نکالا اس کو
آ گیا دل بھی مرا کھینچ کے ترے تیر کے ساتھ

بومؔ صاحب کا یہی مشغلہ ہے آہٹ پر
دل کو بہلاتا ہے ہر دم تری تصویر کے ساتھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse