ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا
by اثر صہبائی

ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا
لے کے ہمراہ مہ داغ جگر جاؤں گا

عارض گل ہوں نہ میں دیدۂ بلبل گلچیں
ایک جھونکا ہوں فقط سن سے گزر جاؤں گا

اے فنا ٹوٹ سکے گی نہ کبھی کشتی عمر
میں کسی اور سمندر میں اتر جاؤں گا

دیکھ جی بھر کے مگر توڑ نہ مجھ کو گلچیں
ہاتھ بھی تو نے لگایا تو بکھر جاؤں گا

ایک قطرہ ہوں مگر سیل محبت سے ترے
ہو سکے جو نہ سمندر سے بھی کر جاؤں گا

دور گلشن سے کسی دشت میں لے جا صیاد
ہم صفیروں کے ترانوں میں تو مر جاؤں گا

صحن گلشن میں کئی دام بچھے ہیں اے اثرؔ
اڑ کے جاؤں بھی اگر میں تو کدھر جاؤں گا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse