ظاہر فریب نرگس مستانہ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظاہر فریب نرگس مستانہ ہو گیا
by محمود رامپوری

ظاہر فریب نرگس مستانہ ہو گیا
کچھ ہوشیار اب دل دیوانہ ہو گیا

آنسو بھرے ہیں آنکھ میں اس مست حسن کی
لبریز کس کی عمر کا پیمانہ ہو گیا

اظہار عرض وصل یہ باتیں نہیں وہاں
اک حرف مدعا انہیں افسانہ ہو گیا

پہلے کہاں تھا اس دل بیتاب کا یہ حال
کمبخت اس کو دیکھ کے دیوانہ ہو گیا

ہمدم شریک کوئی برے وقت کا نہیں
جب دل سا دوست عشق میں بیگانہ ہو گیا

عشق بتاں میں خانۂ دل کا رہا یہ حال
کعبہ بنا کبھی کبھی بت خانہ ہو گیا

ہر مے پرست جامۂ کے خسروی میں تھا
لبریز جب شراب سے پیمانہ ہو گیا

کی میں نے عرض وصل تو بولے رقیب سے
کیا ہوشیار شخص تھا دیوانہ ہو گیا

محمودؔ ہے بتوں سے وفا کی تجھے امید
پتھر سمجھ پہ پڑ گئے دیوانہ ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse