ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوں
Appearance
ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوں
باطن تو ہے تو میں عیاں ہوں
تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں
تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اول آخر نہ درمیاں ہوں
تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں
میں ہی لیلیٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں میں ہی سارباں ہوں
ہوں کنج قفس میں بند لیکن
بیرون زمین و آسماں ہوں
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
جز نام نہیں نشان میرا
سچ مچ میں بحر بیکراں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |