ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق
by عبد الغفور نساخ

ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق
پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق

دیتا ہے لاکھ طرح سے تسکین
مرض ہجر میں دوا ہے عشق

تا دم مرگ ساتھ دیتا ہے
ایک محبوب با وفا ہے عشق

دیکھ نساخؔ گر نہ ہوتا کفر
کہتے بے شبہ ہم خدا ہے عشق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse