طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
by بہادر شاہ ظفر

طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
ظفر ہیں آگ سے پانی کی آرزو کرتے

اشارا اپنے جو ابرو کا وہ کبھو کرتے
ملک فلک سے پئے سجدہ سر فرو کرتے

نمازِ عشق میں جب ہم ہیں سر فرو کرتے
تو آبِ اشک سے سو بار ہیں وضو کرتے

نہ رُوئے یار سے ہوتی جو نسبتِ کعبہ
تمام عمر بھی عاشق ادھر نہ رُو کرتے

وہ سنتے حضرتِ ناصح کہ پھر نہ بات آتی
جو ترکِ عشق میں کچھ اور گفتگو کرتے

عجب نہیں ہے اگر رفتہ رفتہ گم ہوتے
جو کوئے یار میں ہم دل کی جستجو کرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse