طفلی کے خواب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طفلی کے خواب
by مجاز لکھنوی

طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں

دل ہو اسیر گیسوئے عنبر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں

چھیڑا ہے ساز حضرت سعدیؔ نے جس جگہ
اس بوستاں کے شوخ عنادل میں ہم بھی ہوں

گائیں ترانے دوش ثریا پہ رکھ کے سر
تاروں سے چھیڑ ہو مہ کامل میں ہم بھی ہوں

آزاد ہو کے کشمکش علم سے کبھی
آشفتگان عشق کی منزل میں ہم بھی ہوں

دیوانہ وار ہم بھی پھریں کوہ و دشت میں
دلدادگان شعلۂ محمل میں ہم بھی ہوں

دل کو ہو شاہزادیٔ مقصد کی دھن لگی
حیراں سراغ جادۂ منزل میں ہم بھی ہوں

صحرا ہو، خار زار ہو، وادی ہو، آگ ہو
اک دن انہیں مہیب منازل میں ہم بھی ہوں

دریائے حشر خیز کی موجوں کو چیر کر
کشتی سمیت دامن ساحل میں ہم بھی ہوں

اک لشکر عظیم ہو مصروف کارزار
لشکر کے پیش پیش مقابل میں ہم بھی ہوں

چمکے ہمارے ہاتھ میں بھی تیغ آب دار
ہنگام جنگ نرغۂ باطل میں ہم بھی ہوں

قدموں پہ جن کے تاج ہیں اقلیم دہر کے
ان چند کشتگان غم دل میں ہم بھی ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse