طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر
by کیفی حیدرآبادی

طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر
ہماری آنکھ کھلی ہے مقام حیرت میں

اگر خلل ہے تو زاہد مرے دماغ میں ہے
ہزار شکر نہیں ہے فتور نیت میں

بلند و پست کی اس کے کچھ انتہا ہی نہیں
عجیب چیز ہے انسان بھی حقیقت میں

یہ بزم غیر ہے کیفیؔ کدھر گئے ہیں حواس
کہاں تم آ گئے کیا آ گئی طبیعت میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse