طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی
by داغ دہلوی

طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی
ہم بھی اک چیز تھے اس عالم امکاں میں کبھی

رنج میں رنج کا راحت میں ہوں راحت کا شریک
خاک ساحل میں کبھی موج ہوں طوفاں میں کبھی

دل میں بے لطف رہی خار تمنا کی خلش
نوک بن کر نہ رہا یہ کسی مژگاں میں کبھی

وار کرتے ہی بھرا زخم میں قاتل نے نمک
تیغ پر ہاتھ کبھی ہے تو نمکداں میں کبھی

خضر سے میں نے جو کیں جوش جنوں کی باتیں
ایسے نکلے کہ نہ آئے تھے بیاباں میں کبھی

اللہ اللہ رے تری شوخ بیانی اے داغؔ
سست اک شعر نہ دیکھا ترے دیواں میں کبھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse