طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے
طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے
ساتھ غیروں کے مرے حق میں سخن سازی ہے
داغ رکھنے کو مرے ان ہی سے گل بازی ہے
ہمدمی ان سے انھیں سب سے ہم آوازی ہے
گوش کر میرے بھی شکوے کی طرف گل کے رنگ
رکتے رکتے روش غنچہ ہوا ہوں دل تنگ
ایک مدت ہوئی بدنامی و رسوائی ہے
بیکسی بے دلی درویشی و تنہائی ہے
صبح جب دی ہے دعا گالی تری کھائی ہے
ابتدا سے مری ذلت تجھے خوش آئی ہے
خلق کیا کیا تری بے طوریوں سے کہتی نہیں
میں بھی ناچار ہوں اب منھ میں زباں رہتی نہیں
ملتفت حال پہ رہنا ہے مرے اب موقوف
بات گر دن کو کوئی ہوگئی تو شب موقوف
اے فریبندہ سخن رابطے کے سب موقوف
مہر و الطاف و عنایات و کرم جب موقوف
مہربانی سے کبھو کوئی جو ایدھر کی نگاہ
سو بھی اس طور کہ کیا جانیے کیدھر کی نگاہ
میں جو صحبت میں ہوں بیٹھا تو رکے بولو ہو
آنکھیں ایدھر سے جو موندو ہو سو کم کھولو ہو
نام لیتے ہو کراہت سے مرا جو لو ہو
لگ چلے غیر تو تابع اسی کے ہو لو ہو
روے حرف اس کی طرف چشم حمایت اودھر
ابرو اودھر کو جھکے لطف و عنایت اودھر
پیار تجھ کو نہ کیا کرتے اگر جانتے ہم
کاشکے تیری روش پہلے ہی پہچانتے ہم
جھوٹے جھوٹے ترے وعدے نہ کبھو مانتے ہم
جی میں اب ٹھانی ہے جو کچھ سو تبھی ٹھانتے ہم
اس قدر تجھ سے نہ لگ چلتے نہ آتے اس راہ
تو پری ہوتا تو کرتے نہ تری اور نگاہ
یہ فریبندہ سخن گوش نہ کرتے ہرگز
خواہش کنج دہن دل پہ نہ دھرتے ہرگز
بے شب وصل دن اس طور نہ بھرتے ہرگز
لعل جاں بخش پہ یوں تیرے نہ مرتے ہرگز
اتفاقات سے ہو جاتی ملاقات تو خیر
دل تجرد پہ رکھا جب نہ کوئی یار نہ غیر
عشوہ و ناز و ادا سے کسو کو پھر کیا کام
جی نہ بے چین رہا کرتا نہ دل بے آرام
ہوگیا یوں تو کبھو ہوگیا آپس میں کلام
بے رخ و زلف رکن کاہے کو ہر صبح و شام
جنس اچھی تری پر گرمی بازار کہاں
سرگراں تو تو بہت ہے پہ خریدار کہاں
تجھ سے بے مہر و وفا دل کا لگانا تھا غلط
آپ کو حرف غلط رنگ مٹانا تھا غلط
خط دے قاصد کو تری اور چلانا تھا غلط
آتش غم سے مرا جی کا جلانا تھا غلط
اپنی نادانی نہ سمجھے کہ تو کیا نسخہ ہے
آدمی بھی کسو دانا کا لکھا نسخہ ہے
غم نہیں تجھ کو مری یاری وفاداری کا
نہ خیال آوے ہے بندے کی گرفتاری کا
طور چھوڑا نہ تنک تونے ستمگاری کا
وہی عشوہ ہے شب و روز دل آزاری کا
پرسش حال کا بھی مجھ کو نہ ممنوں رکھا
ہے یہ خاطر کہ حزیں دل کے تئیں خوں رکھا
ترک اخلاص کیا سب سے تجھے پیار کیا
رحم دل پر نہ کیا جان کو آزار کیا
چاہ سے اپنی عبث تجھ کو خبردار کیا
کیا کیا ہم نے کہ اس معنی کا اظہار کیا
جوکہ الفاظ نہ شایاں تھے سو تو کہنے لگا
وجہ بے وجہ تو روپوش ہی اب رہنے لگا
آرسی کی کبھی صورت نہ دکھاتے تجھ کو
طرز یہ سرمہ کشی کی نہ سجھاتے تجھ کو
دلربائی کے نہ انداز بتاتے تجھ کو
کیوں بگڑتا تو جو ایسا نہ بناتے تجھ کو
مستی چشم سے ہوتی نہ اگر تجھ کو خبر
ایسی ہشیاری سے کرتا نہ تو ایدھر کو نظر
اور مہ پارہ بھی اس شہر میں مشہور ہے اب
اس کی محبوبی و خوبی ہی کا مذکور ہے اب
دیکھنا کچھ ہو اسی کا مجھے منظور ہے اب
صرف اس پر کروں گا اپنا جو مقدور ہے اب
اس کنے ضد سے تری شام و سحر جاؤں گا
گھر سے جس دم اٹھوں گا اس کے ہی گھر جاؤں گا
وہ بھی سن شور وفا مجھ سے ملا چاہے ہے
مختلط لطف و عنایت سے ہوا چاہے ہے
کوئی دن راتوں کو مجھ پاس رہا چاہے ہے
کام دل لوں ہوں اسی سے جو خدا چاہے ہے
باؤ کا رخ تجھے بتلاؤں دم اس مہ کا بھروں
خط تری بندگی کا کاغذ باد اس کا کروں
میں بھی ناچار ہوں تاچند جفائیں یہ سہوں
قصد رکھتا ہوں کہ اس شہر میں ہرگز نہ رہوں
یا اسی ماہ کنے جا رہوں گو اس میں نہ ہوں
خوبیاں اور ترے حسن سلوک اس سے کہوں
کیں ترا مہر مری دونوں ہیں اس پر معلوم
اس کے معلوم ہوئے روے دل اودھر معلوم
پھر تو جی کو میں کروں گا اسی مہ پر قرباں
راہ و منزل پہ پھروں گا اسی کے دست افشاں
بس بگولا سا ہوا تیرے لیے سرگرداں
اس قدر مجھ کو دماغ اب ہے کہاں دل ہے کہاں
کہ رہوں بیخود و بے خواب شبوں کو روتا
کاش مشتاق ترے منھ کا نہ اتنا ہوتا
اب تو جو کچھ ہو دل اس ساتھ لگا بیٹھوں گا
اس کے دروازے پہ درویش ہو جا بیٹھوں گا
ہاتھ واسوختہ ہو تجھ سے اٹھا بیٹھوں گا
آؤں گا بھی تو ترے پاس نہ آ بیٹھوں گا
دور سے ایک نظر کرکے چلا جاؤں گا
سو بھی کتنے دنوں پھر کاہے کو میں آؤں گا
لاگ ہے جس سے نئی اس سے رکھوں قیل و قال
دل نشیں اس کے کروں خوب طرح کہنہ مقال
ساری مجلس کے تئیں اس کی کروں واقف حال
بعد ازاں ترک کروں کھا کے قسم تیرا خیال
پھر کبھو وہم میں بھی گذرے نہ ملنا تیرا
جب نہ تب در پہ اسی کے رہے ماتھا میرا
لگ چلوں اس سے صبا کی سی طرح شام و سحر
اس کے پاؤں تلے کی خاک کروں کحل بصر
روے گل رنگ سے اس کے نہ اٹھے میری نظر
چپکے اس کے لب شیریں سے رہیں دیدۂ تر
درہمی حال کی اس گیسوے برہم سے رہے
جی کو بے طاقتی اس قد کے چم و خم سے رہے
ناز بیجا ترے دل پھر نہ اٹھاوے ہرگز
بات یہ تیری فریبندہ نہ بھاوے ہرگز
طرز رفتار تری جی میں نہ آوے ہرگز
آنکھ خوبی کی طرف تیری نہ جاوے ہرگز
وہ جو سادہ ہے تو پرکار بھی ہوجاوے گا
اب جو بیگانہ سا ہے یار بھی ہوجاوے گا
فن معشوقی میں تیار کروں گا اس کو
شانہ و آئینہ سے یار کروں گا اس کو
حسن سے اس کے خبردار کروں گا اس کو
ضد سے میں تیری بہت پیار کروں گا اس کو
فرش رہ دیدۂ نمناک کروں گا واں کے
پلکوں سے خار و خسک پاک کروں گا واں کے
ہوگیا مجھ سے جو مانوس تو مرزا ہوگا
پوشش تنگ کا مصروف مہیا ہوگا
گھیر جامے کا نہ سو گز سے کم اس کا ہوگا
لپٹے بندوں کا بر و دوش پہ لچھا ہوگا
چلتے دامن کے تئیں لگتی رہے گی ٹھوکر
ہوگا ہنگامہ ادھر نکلے گا جیدھر ہوکر
کس و ناکس اسی مہ پارے کا مفتوں ہوگا
ایسی سج سے تو اسے دیکھ کے محزوں ہوگا
رشک سے اس کے ترا حال دگرگوں ہوگا
دل نازک ترا دھڑکے گا جگر خوں ہوگا
شرم سے ہوگا نہ اک آنکھ اٹھانا مشکل
بلکہ ہوجاوے گا اس کوچے میں آنا مشکل
طنز و تعریض و کنائے سے بتنگ آوے گا
ناز کا طور فراموش ہی ہوجاوے گا
ربط و اخلاص میں ویسا نہ مجھے پاوے گا
یہ سخن یاد رہے دل میں تو پچھتاوے گا
آشنا جتنے ہیں بیگانہ نکل جاویں گے
سر جھکائے اسی کی اور چلے آویں گے
اب بھی گر سمجھے تو مجھ کو ہے وہی تجھ سے پیار
چھیڑ کا ننگ نہیں تیری نہ گالی کا ہے عار
وہی مخلص ہوں قدیمی وہی میں تیرا یار
بندگی کیش وفاشیوہ و اخلاص شعار
چوٹ مجھ کو بھی تو غیروں کی ملاقات کی ہے
چھوڑے یہ تو تو پھر آزردگی کس بات کی ہے
جی نہ تڑپے گا مرا پھر نہ مری چھاتی جلے
دل نہ سینے میں مرے شام و سحر کوئی ملے
شکوہ ناکی سے زباں منھ میں نہ زنہار ہلے
آئے چلتے کہیں سے تو لیے لگ تیرے گلے
زور سے بازو پہ اپنے ترے سر کو رکھا
دست گستاخ پہ لے تیری کمر کو رکھا
بس ہوس کیشوں سے مل مل کے تو بدنام ہوا
بسکہ راتوں کو رہا شہرۂ ایام ہوا
کاسہ لیسوں کے گہے مرتکب جام ہوا
شوخ و شلتاقی و بدوضع و مے آشام ہوا
طور پر میرے معیشت کوئی دن اچھی ہے
ایسے بدکار سے صحبت کوئی دن اچھی ہے
آ اگر غیر کے ملنے کی قسم کھاتا ہے
میرؔ بھی حرف درشتانہ سے شرماتا ہے
ذوق ویسا ہی ہے اس کا تو اسے بھاتا ہے
دل کے واسوز سے منھ پر یہ سخن لاتا ہے
ورنہ مشتاق ہے سو جی سے جگرخستہ ترا
کشتہ و مردہ ترا رفتہ و دل بستہ ترا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |