طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
by داغ دہلوی

طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی

رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی

رہے پیروی ہجر ہو یا وصال
کہ اک بات آخر ٹھہر جائے گی

محبت میں اے دل نہ ڈر سر پہ کھیل
وہ بازی نہیں یہ کہ ہر جائے گی

نہ گزری شب ہجر سمجھے تھے ہم
تڑپتے پھڑکتے گزر جائے گی

دیا دل تو اے داغؔ اندیشہ کیا
گزرنی جو ہوگی گزر جائے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse